بظاہر ایک لطیفہ مگر ﮬﮯ حقیقت ! ...آپ ﮐﻮ ﺁﺳﺎﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺩﮦ ﺳﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻓﮑﺮ ﮬﮯ . ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮬ ﮐﮧ " ﺷﺎﯾﺪ ﮐﮧ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ" ایک مولوی صاحب مسجد کے صحن میں بچوں کو قُرآن پڑھا رہے تھے کہ نمازِ عصر کا وقت ہو گیا۔ مولوی صاحب نے ایک بچے کو اُٹھ کر آذان دینے کو کہا۔ بچہ نظریں نیچی کر کے بولا ’’ اُستاد جی مُجھے شرم آتی ہے ۔‘‘ مولوی صاحب نے دُوسرے بچے کو آذان دینے کا کہا ۔
اُس بچے نے بھی کہا ’’اُستاد جی مُجھے بھی شرم شرم آتی ہے‘‘
تیسرے اور چوتھے بچے کا بھی یہی جواب تھا ۔ یہ سارا ماجرا دیکھ کر مولوی صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری اور آذان کے لیے اُٹھتے ہوئے کہا "چلو پھر میں ہی بے شرم ہوں جو روز آذان دیتا ہوں ۔"
یہ ہنسنے کا نہیں بلکہ رونے کا مقام ہے ۔ ہم عُلما کے کردار و گفتار پر اعتراض کرنے سے کبھی نہیں تھکتے ۔ اُنگلی اُٹھانا آسان ہے مگر غلط کو درست کرنا مُشکل ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عُلما مُعاشرہ کے اندر اپنا کردار صحیح طریقہ سے ادا نہیں کر رہے تو آپ کے لیے یہ سُنہری موقع ہے اس خامی کو دُور کرنے کا ۔ کہ آگے آئیے اور اس مظلوم بےسہارا قوم کی سرپرستی کیجئے، کہتے ہیں سارا قصور مولویوں کا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر خوشی غم میں مولوی نہ ہو تو جان پر بن جاتی ھے،
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "سب انسان مردہ ہیں, زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں .... سب علم والے سوۓ ہوۓ ہیں, بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں ۔ تمام عمل والے خسارے میں ہیں, فائدے میں وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں۔ سب اخلاص والے خطرے میں ہیں, صرف وہ کامیاب ہیں جو تکبر سے پاک ..... کسی بزرگ نےسچ ہی کہا ہے کہ جب کتابیں سڑک کنارے رکھ کر بکیں گی اور جوتے کانچ کے شو روم میں۔ تب سمجھ لینا کے لوگوں کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے"
مَن يَہۡدِ ٱللَّهُ فَهُوَ ٱلۡمُهۡتَدِى ۖ وَمَن يُضۡلِلۡ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡخَـٰسِرُون
َجس کواللہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں،
یہ گمان کرتے ہوئے اللہ تبارك وتعالى سے ایسے نہ ڈرو کہ، میں نے جو نیکی کی ہے وہ قبول نہیں ہو گی, بلکہ اللہ تبارك وتعالى سے ڈرو کہ میں کوئی برائی کروں گا تو میری پکڑ ہو گی ..!!
Tags:
میری ڈائری کا ایک ورق