ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ بغداد میں ایک بہت ھی نیک لیکن غریب آدمی رہتا تھا اس کا نام علی بابا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کا بھائی اسی شہر کا ایک امیر آدمی تھا جس کی بیوی ایک بہت ھی چالاک عورت تھی اور دونوں بھایوں کو ملنے نہیں دیتی تھی ۔۔۔۔۔علی بابا کی ایک نوکرانی مرجانہ بھی تھی جو بہت ھی بھلی مانس تھی اور ان کے ساتھ ھی رہتی تھی ۔۔۔ایک روز علی بابا اپنے گدھے کو لے کر شہر سے باہر پہاڑ کے جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔وہاں سے لکڑیاں لا کر بیچ کر گزر بسر کرتا تھا ۔۔
ایک دن وہ لکڑیوں کی تلاش میں پہاڑ پر کافی دور نکل گیا وہاں شام ھو گی ۔۔جب وہ واپس آنے لگا تو اس نے بہت سارے گھوڑوں کی ٹاپیں سنیں وہ ڈر گیا اور ایک گھنی جھاڑی کے اندر چھپ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ھی دیکھتے اس کے سامنے چالیس سوار آ کر کھڑے ھو گئے ۔۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ وہ ڈاکو تھے ۔۔۔وہ اور بھی ڈر گیا اور دبک کے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ان میں سے ایک ڈاکو جو ان کا سردار لگ رہا تھا پہاڑ کے نزدیک گیا اور اس نے کہا ۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔۔اور اچانک پہاڑ کے اندر ایک بھاری چٹان کھسکنے لگی اور ایک غار کا منہہ کھل گیا ۔۔۔۔۔وہ سارے ڈاکو اندر چلے گے اور سردار نے بند ھو جا سم سم تین دفعہ کہا اور غار کا منہہ بند ھو گیا ۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد وہ سارے ڈاکو باہر نکلے اور جدھر سے آے تھے ادھر ھی واپس چلے گئے ۔۔۔۔ اب علی بابا نے جب اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ وہ چلے گئے ھیں تو وہ باہر نکلا اور پہاڑ کے سامنے کھڑا ھو گیا اور بالکل انہی ڈاکوں کی طرح کھل جا سم سم تین دفعہ کہا تو غار کا منہ کھل گیا اس نے اسی طرح اندر جا کر اسے بند کر دیا ۔۔۔اندر جا کر اس نے کیا دیکھا کہ پورا غار سونے چاندی اور جواہرات سے بھرا ھوا ھے ۔۔۔۔وہ ڈاکو اپنا لوٹ مار کا سارا خزانہ وہاں چھپا دیتے تھے ۔۔۔۔علی بابا خوشی کے مارے پاگل ھو گیا کبھی سونا چاندی ھوا میں اچھالتا تھا تو کبھی اپنے اوپر ڈالتا تھا لیکن جلد ھی اسے ھوش آ گیا ۔۔۔۔۔۔اس نے اس خزانے میں صرف اس قدر اٹھایا جو کہ ڈاکوں کو پتا نہ چل سکے کہ ان کے خزانے میں کچھ کمی ھوئی ھے اور اپنے گدھے پر لاد کر جلد ھی اس غار میں سے نکل آیا لیکن وہ بقدر بھی اس قدر زیادہ تھا کہ گھر جا کر وہ اس کی بیوی اور مرجانہ بھی نہ گن سکیں تو علی بابا کی بیوی نے کہا کہ جا کر بھائی سے ترازو لے آؤ تا کہ ھم اس سونے کو تول لیں ۔۔۔۔۔
ایک دن وہ لکڑیوں کی تلاش میں پہاڑ پر کافی دور نکل گیا وہاں شام ھو گی ۔۔جب وہ واپس آنے لگا تو اس نے بہت سارے گھوڑوں کی ٹاپیں سنیں وہ ڈر گیا اور ایک گھنی جھاڑی کے اندر چھپ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ھی دیکھتے اس کے سامنے چالیس سوار آ کر کھڑے ھو گئے ۔۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ وہ ڈاکو تھے ۔۔۔وہ اور بھی ڈر گیا اور دبک کے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ان میں سے ایک ڈاکو جو ان کا سردار لگ رہا تھا پہاڑ کے نزدیک گیا اور اس نے کہا ۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔کھل جا سم سم ۔۔۔۔اور اچانک پہاڑ کے اندر ایک بھاری چٹان کھسکنے لگی اور ایک غار کا منہہ کھل گیا ۔۔۔۔۔وہ سارے ڈاکو اندر چلے گے اور سردار نے بند ھو جا سم سم تین دفعہ کہا اور غار کا منہہ بند ھو گیا ۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد وہ سارے ڈاکو باہر نکلے اور جدھر سے آے تھے ادھر ھی واپس چلے گئے ۔۔۔۔ اب علی بابا نے جب اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ وہ چلے گئے ھیں تو وہ باہر نکلا اور پہاڑ کے سامنے کھڑا ھو گیا اور بالکل انہی ڈاکوں کی طرح کھل جا سم سم تین دفعہ کہا تو غار کا منہ کھل گیا اس نے اسی طرح اندر جا کر اسے بند کر دیا ۔۔۔اندر جا کر اس نے کیا دیکھا کہ پورا غار سونے چاندی اور جواہرات سے بھرا ھوا ھے ۔۔۔۔وہ ڈاکو اپنا لوٹ مار کا سارا خزانہ وہاں چھپا دیتے تھے ۔۔۔۔علی بابا خوشی کے مارے پاگل ھو گیا کبھی سونا چاندی ھوا میں اچھالتا تھا تو کبھی اپنے اوپر ڈالتا تھا لیکن جلد ھی اسے ھوش آ گیا ۔۔۔۔۔۔اس نے اس خزانے میں صرف اس قدر اٹھایا جو کہ ڈاکوں کو پتا نہ چل سکے کہ ان کے خزانے میں کچھ کمی ھوئی ھے اور اپنے گدھے پر لاد کر جلد ھی اس غار میں سے نکل آیا لیکن وہ بقدر بھی اس قدر زیادہ تھا کہ گھر جا کر وہ اس کی بیوی اور مرجانہ بھی نہ گن سکیں تو علی بابا کی بیوی نے کہا کہ جا کر بھائی سے ترازو لے آؤ تا کہ ھم اس سونے کو تول لیں ۔۔۔۔۔
علی بابا بھائی کے گھر گیا تو اس کی بیوی نے دروازہ کھولا علی بابا نے ڈرتے ڈرتے اس سے ترازو کا سوال کیا ۔۔۔پہلے تو وہ انکار کرنے لگی لیکن جانے کیا سوچ کر چپ چاپ ترازو لا کر اسے دے دیا ۔علی بابا خوش خوش گھر واپس آیا اور انہوں نے اس خزانے کو تول کر چھپا کر رکھ لیا ۔۔۔۔۔۔بھائی نے بیوی سے پوچھا تم تو اسے کچھ نہیں دیتی ھو ۔۔۔تو اب ترازو کیاں دے دیا تو وہ بولی تمہارا بھائی تو اتنا غریب ھے تو اس نے ترازو کیوں مانگا میں نے بھی ترازو کے نیچے گوند لگا دیا ھے دیکھو کیا ھوتا ھے ۔۔۔۔بھائی بولا واہ بیوی تم تو بہت عقلمند ھو ۔۔۔۔۔۔۔دوسرے دن علی بابا ترازو واپس کر گیا اور اس کی بھابھی کی آنکھیں پھٹ گئیں جب اس نے ترازو کے نیچے ایک اشرفی چپکی ھوئی دیکھی ۔۔۔۔۔۔وہ بولی یہ کیا ھے اس کے پاس اتنی اشرفیاں کہاں سے آئیں کہ ترازو سے تولتا پھر رہا ھے جاو اس سے پوچھو اسے دھمکی دو کہ بتائے ورنہ ھم کوتوال شہر کو بتا دیں گے۔۔۔
بھائی علی بابا کے پاس گیا اور اسے یہ دھمکی دی علی بابا نے ڈر کر اسے بتا دیا سار قصہ ۔۔۔وہ خوشی خوشی گھر آیا اور اگلے دن دو گھوڑے لے کر گیا اور بہت سارا خزانہ لے آیا ۔۔۔لیکن اس کی بیوی نے اسے بہت ڈانٹا اور اس سے کہا کہ اور لاؤ یہ کم ھے ۔۔۔۔اب وہ اسے روز بھیج دیتی اور وہ روز لے کر آ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ڈاکووں کو بھی احساس ھو گیا کہ خزانہ کم ھو گیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چوری ھو رہا ھے ۔۔۔۔ایک دن جب علی بابا کا بھائی اندر ھی تھا وہ اپنے وقت سے پہلے آ گئے اور ان کی آوازیں سن کر علی بابا کا بھی کہیں چھپ گیا وہ اسے پکڑ نہ سکے اور کسی کو نہ پا کر واپس چلے گئے ۔۔۔بھائی کانپتا ھوا نکلا اور جلدی سے غار کے دہانے پر گیا اور اچانک اسے پتہ چلا کہ وہ خوف کے مارے وہ الٖفاظ بھول گیا ھے جس سے غار کا دہانہ کھلتا تھا اس نے بہت کوشش کی لیکن اسے یاد نہ آیا ۔۔۔۔دو دن تک وہ بھوکا پیاسا اندر بند رہا اس اثنا میں ڈاکو آ گئے اور انہوں نے اسے تلاش کر لیا کیوں کہ اس کے گھوڑے بھوک کی وجہ سے ھنھنا رہے تھے ۔۔انہوں نے اس کا سر قلم کر دیا اور اسے وہیں غار میں پڑا رہنے دیا ۔۔۔
جب دو دن گزر گے تو بھابھی نے علی بابا کو بلایا اور اسے سارا قصہ سنایا اور علی بابا اس غار میں پہنچا تو دیکھا کہ غار کے اندر اس کے بھائی کی لاش پڑی ھے ۔۔۔اس نے اسے اٹھایا اور اپنے گدھے پر لاد کر واپس لے آیا ۔۔۔۔۔اس نے مرجانا سے مشورہ مانگا کہ اب کیا کریں اگر میں گردن کٹی لاش بھابھی کو دیتا ھوں تو پورے شہر میں پھیل جائے گا کہ کسی نے اسے قتل کیا ھے اور ڈاکوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ لاش کہاں واپس لے جائی گی ھے اور وہ مجھے بھی ڈھونڈ نکالیں گے ۔۔۔مرجانہ نے کچھ سوچا اور بولی میں ابھی آئی ۔۔۔وہ اسی شہر کے ایک درزی کے پاس گئی اور اسے بھائی کے گھر لے گئی یہ کہہ کر کہ میں تمہاری آنکھوں پر کپڑا باندھ دوں گی اور تمہیں بہت سونا دوں گی وہ لالچ میں تیار ھو گیا اور اس کے گھر جا کر علی بابا کے بھائی کی گردن سی دی اور انہوں نے اسے دفنا دیا ۔
جب دو دن گزر گے تو بھابھی نے علی بابا کو بلایا اور اسے سارا قصہ سنایا اور علی بابا اس غار میں پہنچا تو دیکھا کہ غار کے اندر اس کے بھائی کی لاش پڑی ھے ۔۔۔اس نے اسے اٹھایا اور اپنے گدھے پر لاد کر واپس لے آیا ۔۔۔۔۔اس نے مرجانا سے مشورہ مانگا کہ اب کیا کریں اگر میں گردن کٹی لاش بھابھی کو دیتا ھوں تو پورے شہر میں پھیل جائے گا کہ کسی نے اسے قتل کیا ھے اور ڈاکوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ لاش کہاں واپس لے جائی گی ھے اور وہ مجھے بھی ڈھونڈ نکالیں گے ۔۔۔مرجانہ نے کچھ سوچا اور بولی میں ابھی آئی ۔۔۔وہ اسی شہر کے ایک درزی کے پاس گئی اور اسے بھائی کے گھر لے گئی یہ کہہ کر کہ میں تمہاری آنکھوں پر کپڑا باندھ دوں گی اور تمہیں بہت سونا دوں گی وہ لالچ میں تیار ھو گیا اور اس کے گھر جا کر علی بابا کے بھائی کی گردن سی دی اور انہوں نے اسے دفنا دیا ۔
Tags:
نانی اماں کی کہیانیاں