______ خونی قبرستان _______
1
ٹهنڈ اتنی زیادہ تھی کہ جسم کے آر پار ہو رہی تهی.اور وہ تو ایک پہاڑی علاقہ تها وہاں تو حد سے زیادہ سردی تهی . میں گاڑی چلاتے ہوئے ادهر ادهر خوبصورت علاقے کا جائزہ بهی لے رہا تها.............
میں اس پہاڑی علاقے میں پہلی بار آیا تها اس لیے ابهی تک میں قدرتی حسن سے نا آشنا تها.شہر سے میلوں دور یہ پہاڑی خوبصورت علاقہ واقعی بہت خوبصورت تها . خوبصورت لمبے لمبے درخت پہاڑوں کی تہہ پہ جمی سفید برف اس علاقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے. ..........
میں اپنے ایک دوست کی شادی پہ جا رہا تها .حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اس کی حد سے زیادہ اسرار پہ مجھے مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا...................
سڑک بهی سنسان تها.ہر طرف خاموشی نے قبضہ جما رکها تها. پرندوں کی چہچہاہٹ اس خاموشی کو توڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی. .......
اچانک بیچ سڑک پہ میری گاڑی بند ہو گئی تو مجبوراً مجھے گاڑی سے نیچے اترنا ہی پڑا. میں کوئی پروفیشنل مکینک نہیں تها لیکن گاڑی کی چهوٹی موٹی پرابلمز بڑے لمبے وقفے کے بعد بہرحال میں ٹھیک کر ہی لیتا تھا .........................
مگر اس دن عجیب بات یہ ہوئی گاڑی کی بظاہر ہر شے ٹهیک تهی کہیں کوئی بھی خرابی مجھے نظر نہ آئی پهر گاڑی بند ہونے کی وجہ میری سمجھ سے تو بالاتر تها............
2
کافی دیر جدوجہد کرنے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ گاڑی میں کوئی بڑی خرابی ہو گئی ہو گی جو میں تو اگلی سو زندگیوں تک بهی ٹهیک نہ کر سکتا .اجنبی علاقہ تها اجنبی راستے تهے میں تو یہاں کسی بھی شے سے واقف نہ تها............
اگر کہیں کوئی موٹر ورکشاپ وغیرہ تها بھی تو وہ میری علم میں تو نہ تها ایسے میں میرے پاس صرف ایک ہی آپشن تها .میں اپنے دوست کو کال کر کے اسے اس سارے مسئلے سے آگاہ کروں.............
لیکن سب سے بڑی عجیب بات تو یہ تهی کہ مجھے خود نہیں پتا تھا اس وقت میں کہاں کس جگہ کهڑا ہوں اور اگر دوست نے پوچھ لیا کہ میں کہاں ہوں کس طرف ہوں تو میں اسے کم از کم یہ تو نہیں کہہ سکتا تها کہ میں بیچ سڑک پہ لمبے درختوں کے پاس کهڑا ہوں.......................
کیوں کہ یہ غیر معمولی نشانی نہ تهی ہر طرف ایک جیسے درخت ایک جیسے پہاڑ تها.ابهی میں اسی کشمکش میں ہی تها کہ میں نے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنی. میں نے گردن گهما کر پیچھے دیکھا تو دو نوجوان لڑکے میری طرف ہی آ رہے تھے. ................
مجھے حیرت ہوئی کیونکہ ابهی تهوڑی دیر پہلے یہاں انسان تو کیا کسی جانور تک کا کوئی وجود نہ تها اور ایسے میں یہ دونوں. .........؟ ان دونوں نے آ کر مجھے سلام کیا ...سلام کا جواب دینے کے بعد انہوں نے گاڑی کا مسئلہ پوچھا. ..تو میں نے بھی بے اختیار انہیں بتا دیا................
3
پهر ان میں سے ایک لڑکا گاڑی چیک کرنے لگا اور حیرت کی بات یہ تهی دو منٹ میں ہی گاڑی بالکل صحیح سلامت ہو گئی. ...........................
آپ کا نام کیا ہے بهائی. ...؟.....
میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا وہ دونوں لڑکے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے انہیں بھی اسی علاقے تک جانا تها جہاں میں جا رہا تھا.انہوں نے مجھ سے لفٹ مانگی..اب انہوں نے میری گاڑی کا مسئلہ حل کر دیا تها ایسے میں ان کو انکار کرنا انسانیت کے خلاف تها ..اس لئے میں نے ان دونوں کو لفٹ دے دی.............
کشف علی.....میں نے جواب دیا......
میرا نام احمد ہے اور اس کا نام آصف. ..اس لڑکے نے خود ہی اپنا تعارف کرایا...........
آپ اس گاؤں میں پہلی بار آ رہے ہیں. ..احمد نے ایک اور سوال کیا. ...
ہاں . میں نے اس بار بھی ایک لفظ کا جواب دیا .. ایک تو میں انہیں جانتا بهی نہیں تها اور دوسرا اس سنسان سڑک پہ وہ دونوں کچھ بھی کر سکتے تھے میرے ساتھ. مجھ پہ حملہ کر کے میری گاڑی بھی چهین سکتے تھے. .میرے دل میں ایک عجیب ڈر پیدا ہو گیا تھا حالانکہ وہ شکل سے بہت شریف اور پڑھے لکھے لگ رہے تھے. .................
4
اب کار میں بالکل خاموشی تهی. ناں انہوں نے کوئی سوال کیا اور نہ ہی میں نے خود سے کوئی بات شروع کی. ایک بار میں نے بیک ویومر سے ان دونوں کو دیکها دونوں کے چہروں پہ ایک مبہم سی مسکراہٹ تھی جس کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا اور اگر اس وقت میں ان دونوں کو غور سے دیکهتا تو میں سمجھ جاتا کہ وہ دونوں. ...............
اب گاڑی تقریباً ایک آبادی میں داخل ہو چکی تهی وہاں پہاڑوں کے اوپر پتهروں سے چهوٹے گهر بنے ہوئے تھے. لیکن کوئی انسان دور دور تک بهی مجھے کہیں نظر نہ آیا..شاید سردی کی وجہ سے اندر چهپے بیٹهے ہوں..میں نے خود اپنی طرف سے اندازہ لگایا. آبادی بھی کوئی اتنی زیادہ نہ تهی .......
پهر میری گاڑی ایک قبرستان کے پاس والی سڑک پہ گزرنے لگی..دور دور تک پھیلا قبرستان اپنے اندر ایک وحشت کا سماں لیے ہوئے تھا وہاں لاکھوں لوگ ابدی نیند سوئے ہوئے تھے. ........
آپ کو قبرستان سے ڈر لگتا ہے....؟ احمد نے کافی وقفے کے بعد ایک اور سوال کیا. ........
5
نہیں تو قبرستان سے بهلا ڈرنے کی کیا بات ہے. یہ بھی تو ہماری طرح کے انسان ہی ہیں. اور یہ ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتے . میں نے سنجیدگی سے جواب دیا.................
نہیں قبرستان ایک عبرت اور وحشت کا مقام ہے یہاں ہر انسان کو ڈرنا چاہیے. وہ پراسرار انداز میں بولا........
نہیں مجھے تو کهبی ڈر نہیں لگا قبرستان سے.اور نہ ہی کهبی میرے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس وجہ سے میں قبرستان سے ڈروں........
آپ کے ساتھ پیش نہیں آیا تو کیا...؟ کسی کے ساتھ تو پیش آیا ہو گا ناں...؟ قبرستان میں خطرناک روحیں ہوتی ہیں. وہ اپنی بات پہ ڈٹے ہوئے تها......
اور میں نے بے اختیار ایک قہقہہ لگایا. یہ سب روحیں بهوت وغیرہ فلموں ڈراموں میں ہوتی ہیں اصل زندگی میں نہیں. ..اچها آپ کے ساتھ کهبی پیش آیا ایسا کوئی واقعہ. ؟.میں نے تجسس سے پوچھا. ........
میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں اس کے بعد آپ پهر کهبی نہیں کہہ سکو گے کہ آپ کو قبرستان سے ڈر نہیں لگتا ...اس وقت اس کی اس بات کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا اگر سمجھ جاتا بھی تو......
یہ آج سے تیس سال پہلے کا واقعہ ہے اسی گاؤں میں دو دوست تهے..اسد اور فہد. ..
اسد شہر سے اپنے دوست فہد کے پاس اکثر چھٹیاں گزارنے آیا کرتا تھا. اور اس دن بھی وہ دونوں آرام سے ایک خوبصورت پہاڑی پر ٹہل رہے تھے. نیچے قبرستان تها بہت بڑا قبرستان. ...
6
یار اسد یہ قبرستان بھی عجیب چیز ہے کل تک یہ لوگ ہماری طرح پیسہ کمانے میں گاڑیاں خریدنے میں یا بنگلے بنانے میں مصروف تهے وہی لوگ مرنے کے بعد ڈر کی تصویر بن جاتے ہیں. ...اسد کی نگاہیں بھی نیچے قبرستان کو دیکھ رہیں تهیں. .فہد کی بات سننے کے بعد اس نے بے یقینی سے کہا........................
میں نہیں ڈرتا قبرستان سے...خالی پتهروں سے بهلا کیا ڈرنا....؟
تم ایسا اس لیے کہہ رہے ہو کیوں کہ تم ابهی تک اس قبرستان کی بهیانک حقیقت سے انجان ہو ...فہد نے روانی سے کہا اور پھر جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس نے اسد کے سامنے ایک غلط بات کہہ دی.............
کیسی بهیانک حقیقت. ..؟ اسد نے تجسس سے پوچھا. ..
کچھ نہیں رہنے دو..فہد نے ٹالنے کی کوشش کی. .نہیں نہیں تم بتاؤ مجھے کیسی حقیقت. ..اسد کا تجسس بڑهنے لگا..........
دیکهو ہمارے بڑے بزرگ کہتے ہیں آج تک رات کے وقت جو بھی اس قبرستان میں گیا وہ زندہ واپس نہ آیا. .....
اسد نے قہقہہ لگایا. ...
تم مجھے کسی ڈراونی فلم کی کہانی سنا رہے ہو.
یہ حقیقت ہے تم یقین کرو نہ کرو اسد....فہد اعتماد سے بولا..............
میں نہیں مانتا. ..تم بهی مان لو کہ یہ جن بهوت کچھ نہیں ہوتے. .چلو ایسا کرتے ہیں ہم آج رات اس قبرستان میں جا کر دیکهتے ہیں. ..دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا. ............
فہد کو جس بات کا ڈر تھا اسد وہی کہہ گیا....
آر یو او کے. ..؟ تمہیں پتا بھی ہے تم کیا کہہ رہے ہو. ..چلو گهر واپس چلتے ہیں. فہد نے گهبراتے ہوئے کہا............
7
نہیں اب تو بالکل بهی نہیں_ ابهی تو قبرستان کا بهوت دیکهنا باقی ہے ...اسد نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا. .............
بے وقوف مت بنو فہد یہ کوئی مذاق نہیں ہے آج تک جو بھی رات کے وقت اس قبرستان میں گیا وہ کهبی لوٹ کر نہیں آیا......چلو..........
تمہیں جانا ہے تو جاو میں تو دیکھ کر ہی رہوں گا .دیکهتا ہوں مجھے کیا ہوتا ہے......اسد حتمی لہجے میں بولا.........
فہد کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا . اسد کسی بھی طرح اس کی بات ماننے کو تیار نہ تها.اسے سمجھانے کا وہ ہر طریقہ استعمال کر چکا تها مگر اسد ضدی تها اور اسے ان سب چیزوں کا ہمیشہ سے ہی شوق رہا ہے..
وہ چاہ کر بھی اپنے بچپن کے دوست کو اکیلا نہیں چهوڑ سکتا تها....اسے اسد کی ضد کے سامنے مجبوراً رات کو اس قبرستان جانے کا فیصلہ کرنا ہی پڑا...لیکن اس فیصلے کے باوجود وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہاں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے. ..اس کا دل تهر تهر کانپ رہا تھا. .........
سورج کو کالی رات نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ہر طرف لرزا دینے والا اندهیرہ تها. وہ دونوں دوست زندگی کے ایک ایسے بهیانک موڑ پہ کهڑے تهے جہاں سے واپس لوٹ جانا مشکل نہیں ناممکن تھا. وہ دونوں اس خطرناک قبرستان کے باہر کھڑے تھے .اس قبرستان میں لوگ رات تو کیا دن کی روشنی میں بھی آنے سے گهبراتے ہیں. جانے کونسا راز دفن تها اس قبرستان میں. ....
8
اچانک تیز ہوا چلی اور جیسے ہوا میں ایک آواز آ رہی ہو. ....
لوٹ جاو.....لوٹ جاو......
فہد نے اسے سمجھانے کی ایک آخری کوشش کی مگر اسد کا فیصلہ ابهی بهی وہی تها آر یا پار ہار یا جیت زندگی یا موت.....؟
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﮩﻼ ﻗﺪﻡ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﮐﻬﺎ ...
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺠﻠﯽ ﭼﻤﮑﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺁﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ .. ﮈﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﺪﯾﺪ
ﻟﮩﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻬﻮ ﮐﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ .
ﺳﺎﺭﺍ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺗﻬﺎ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ
ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ. ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ
ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺗﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﺑﻬﻮﺕ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮ ..
ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺞ ﺭﮨﮯ ﺗﻬﮯ.ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﭨﻬﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﻼ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﻮﺕ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ. .
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺎﺅﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﮑﻮﺍﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
.ﺍﺳﺪ ﻧﮯ ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻓﮩﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ...
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻟﯽ ﺑﻠﯽ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﭼﻠﻨﮯ
ﻟﮕﯿﮟ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﭼﻤﮑﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ
ﺟﯿﺴﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ....
ﭘﮭﺮ ﺍﺳﺪ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻭﺍﻻ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. ..
ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮎ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻬﯽ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺳﭻ ﺗﻬﺎ ..
ﻓﮩﺪ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﺎﺵ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﮐﺎﺵ ﯾﮧ
ﺳﺐ ﺟﮭﻮﭦ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺳﻔﯿﺪ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻭﺍﻻ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ
ﮐﻬﮍﺍ ﺗﻬﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻭﮦ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ. ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻬﺎﺗﺎ ....
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮈﺭ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﭙﮯ ﻟﮕﮯ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ
9
ﮐﯿﺴﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ. ....
ﺍﺳﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﮩﺪ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ
ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﻭ ﻗﺒﺮﯾﮟ
ﮨﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﻬﮏ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﺌﮯ. ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ
ﻭﮦ ﺁﻭﺍﺯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮔﺌﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﮬﻤﺎﮐﮧ ﮨﻮﺍ
ﮨﻮ..ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮔﺮﺍ ﻧﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﻬﭩﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ. ..............
سامنے ایک قبر پهٹا ہوا تها اس میں ایک مردہ لیٹا ہوا تھا اور اس کے پاس ایک سفید بڑی دانتوں والی بوڑھی عورت اس مردے کا خون پی رہی تھی. .فہد کو لگا اچانک اس کی دھڑکن رک جائے گی .اس نے بے ساختہ اسد کا ہاتھ پکڑ لیا وہ خود ڈرا ہوا تھا. .........
وہ دونوں جلدی جلدی وہاں سے بهاگ گئے اور جا کر ایک قبر پر بیٹھے گئے. .ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺷﺎﯾﺪ دو بج رہے تھے ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﺋﯿﮟ. .
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﻬﻤﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ اور ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻣﺎﺗﻬﺎ
ﭨﯿﮑﮯ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. .
ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﻓﮩﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺪ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ. ..
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ..
ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ
ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﮑﻠﻮﮞ ﮔﯽ ...
ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﺳﺪ
ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﻮ
ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﭘﻬﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ..........
ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ , ﺍﺳﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ..
ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﻬﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﮩﺪ ﮐﯽ
ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﭘﺎ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ...
10
ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﺍﯾﮏ ﭘﻬﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺳﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﮯ. ..ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ. ..
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻓﮩﺪ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺳﻮﮐﮫ
ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺍﻟﭩﮯ ﺗﻬﮯ .. ﻣﻄﻠﺐ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺪ ﺭﻭﺡ ﺗﻬﯽ....وہ دونوں جتنا تیز بهاگ سکتے تھے بهاگے انہیں اپنے پیچھے اس عورت کے قہقہے سنائی دیے.................
ایک منٹ گاڑی روکیں....میں احمد کی آواز پر چونک گیا.میں نے بریک لگا دی احمد گاڑی سے اتر کر سامنے سڑک پہ لگے پانی کے نلکے سے پانی پی رہا تها..مجھے بھی پیاس کا احساس ہوا گلہ سوکھ رہا تها میں نے بھی گاڑی سے اتر کر پانی پیا..لیکن میری ساری توجہ اس وقت اس کہانی پر تهی جو احمد مجھے سنا رہا تھا. ...........
گاڑی میں واپس بیٹھ کر میں نے تجسس سے احمد کو ایک بار وہ واقعہ سنانے کو کہا...وہ ایک بار پھر شروع ہو چکا تها............
وہ دونوں وہاں سے بهاگ کر اس بهیانک قبرستان سے باہر نکلنا چاہتے تھے. .
..ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﮩﺮﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ
ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻓﮩﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﯿﺎ ﺗﮭﺎ. ..
ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺗﺎﺭﮮ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺟﮕﮧ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺑﺎﺩﻝ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﺮﺳﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ
ﻋﺠﯿﺐ ﻭﺣﺸﺖ ﭼﻬﺎ ﮔﺌﯽ. ..ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﺩﻭﺭ ﺗﻬﯽ ﺑﮩﺖ
ﺩﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ. .
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ...
ﺑﺎﺭﺵ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺮﻑ ﺑﺎﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ. ﭘﻬﺮ ﺩﯾﮑﻬﺘﮯ
ﺩﯾﮑﻬﺘﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ .. ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻢ
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ دونوں ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﻬﺎﮔﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺭﻭکنے کی کوشش کر رہی ہے. ..
ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ دونوں ﺑﮩﺖ ﺁﮔﮯ ﺁ ﮔﺌﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﺎ ﺧﺘﻢ
ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﮭﺎ . .. ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﺮ ﭘﻬﭩﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﯿﺪ ﺟﺴﻢ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺍ
ﻭﮦ دونوں ڈرتے ہوئے ﭼﻠﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﺎﮎ ﺑﻬﯽ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﮐﭽﮫ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ
ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺎﻟﮯ ﮐﻮﮮ ﻣﻨﮉﻻ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ. .. ﺍﻥ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.ﺍﺏ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻨﮕﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺳﻤﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻃﻮﻓﺎﻥ
ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ....
ﺑﻬﺎﮒ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻢ دونوں ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺒﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﺎﮒ ﺳﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻬﺎگنا ﺍﺗﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ...ﯾﮩﺎﮞ ﺁﺗﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ
ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ. .ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺗﯿﺰ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﻬﯽ ..
ﺁﻭﺍﺯ ﭘﻬﺮ ﺳﮯ ﺁﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ. .
ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺟﻦ ﺑﻬﻮﺕ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
.ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﮨﻮ ..ہاہاہاہاہاہا
11
ﭘﮭﺮ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ گئیں ﺑﺎﺭﺵ ﺑﮭﯽ ﺗﻬﻢ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﺎ ...
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮐﺜﺮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﻟﯿﮯ ﮐﻬﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.بهاگتے بهاگتے اچانک وہ دونوں رک گئے. .ہر طرف سفید کفن میں ملبوس بد روحیں کهڑی تهیں.وہ روحیں بہت بهاینک تهیں ان کے لمبے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے. ان کے منہ سے خون ٹپک رہا تھا. ..اور اوپر آسمان پر کالے کوے منڈلا رہے تھے. ......
اچانک ایک بڑے قد والا روح آگے بڑھا ان دونوں کو مارنے کے لیے. وہ دونوں پیچھے کی طرف بهاگنا چاہتے تھے مگر پیچھے بھی وہی بد روحیں تهیں...ان لوگوں کے لیے نکلنے کا ہر راستہ بند ہو چکا تھا. ..بڑے قد والے بد روح نے آگے بڑھ کر اسد کو اپنے لمبے ہاتھوں سے اٹها کر ایک قبر میں ڈال دیا اور کچھ بد روح اسد کا خون پینے لگے..فہد چلاتا رہا مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اور تهوڑی ہی دیر میں اسد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا..پهر اچانک وہ سب غائب ہو گئے. وہاں اس قبرستان میں کوئی نہ تها...فہد اسد کی لاش پر سر رکھ کر رونے لگا ...............
کیوں رو رہے ہو فہد...؟ اس نے گردن اٹها کر دیکها سامنے اسد زندہ کهڑا قہقہے لگا رہا تها..اس نے ایک نظر سامنے پڑی لاش کو دیکها اور ایک نظر اسد کی روح کو.....وہ یہ خوفناک منظر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا......اور دل کا دورہ پڑنے سے وہ وہیں اسد کی لاش پر گر گیا.........
وہ دونوں دوست اپنی زندگی کی بازی ہار چکے تهے..اگلی صبح گاؤں والوں نے ان دونوں کی لاشیں قبرستان میں دیکهیں. ............
اور آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا اس بهاینک قبرستان کے اندر ان دونوں کے ساتھ کیا ہوا احمد نے اپنی کہانی ختم کی.........
میں نے بے یقینی کے ساتھ اسے دیکها...اور ایک سوال میرے ذہن میں بجلی کی طرح آئی...جو میں نے احمد سے پوچھا. .......
وہ دونوں تو مر گئے تھے پھر جب کسی کو نہیں پتا چلا کہ قبرستان کے اندر اس اندھیری رات میں کیا ہوا تها ان دونوں کے ساتھ. ..تو تمہیں کیسے پتا.....؟
ہاہاہاہاہا ان دونوں نے مجموعی قہقہہ لگایا. .
میں نے بیک ویومر سے ان کو دیکها. ......
کیونکہ وہ اسد میں ہوں اور وہ فہد یہ ہے...
وہ دونوں ایک بار پھر قہقہے لگانے لگے..میں نے اچانک بریک پر پاوں رکها. .پهر یک دم کار میں خاموشی چها گئی. ..میں نے بیک ویومر میں دیکها وہ دونوں مجھے نظر نہ آئے.......
تیزی سے گردن گهما کر میں نے پیچھے دیکها تو وہ دونوں سیٹ خالی تهی....میرے جسم سے جیسے سارا خون خشک ہو گیا. ..میں حیرت سے منہ کهولے ان خالی سیٹوں کو دیکھ رہا تها....ریڑھ کی ہڈی میں ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی. .....
میں نے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے بے اختیار سی کیفیت میں ایک بار پھر گاڑی واپس اسی راستے پہ موڑ دی جس سے میں ابهی سفر کر کے آیا تھا. ....................
لیکن مجھ پہ حیرتوں کے طوفان اس وقت ٹوٹے جب میں نے اس جگہ کو دیکها جہاں پانی کا نلکا لگا تها .جہاں ہم نے پانی پیا تھا...وہ....وہ...وہاں....کوئی نلکا نہیں تها بلکہ ایک لمبا پیپل کا درخت تها...
مجھے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا پھر جب میں اس قبرستان تک پہنچا جہاں دور دور تک قبریں تهیں....وہاں کوئی قبرستان نہ تها وہاں لوگ کهیتوں میں کام کر رہے تهے...........
ایک گہرا سانس لے کر میں نے ایک بار پهر سے اپنا سفر شروع کیا. ..اور یہ میری زندگی کا سب سے خوفناک سفر تها ______.
اختتام. ....
Tags:
ڈراؤنی کہانیاں