جہاں تک ممکن ہوسکے دوسروں کی باتوں پر کان نہ دھریں ورنہ کسان کی طرح آپ کا بھی ہنستا بستا گھر اجڑ جائے گا۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
کسی گاؤں میں ایک چغل خور رہتا تھا۔ دوسروں کی چغلی کھانااس کی عادت تھی اور وہ کوشش کے باوجود اس عادت کونہ چھوڑسکا تھا۔ اسی عادت کی وجہ سے اسے اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔کچھ دن وہ اپنی جمع پونجی پر گزربسر کرتا رہا،پھر جب نوبت فاقوں تک آگئی تواس نے گاؤں کو چھوڑ کر کہیں اور قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تھوڑا سا ضروری سامان ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگیا اور چلتے چلتے ایک اور گاؤں میں جاپہنچا۔یہ گاؤں اس کے لئے نیا تھااور اسے وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ ایک کسان کے پاس گیااور اس سے ملازمت کی درخواست کی۔
کسان اکیلا تھا اور اسے ملازم کی ضرورت تھی۔ چغل خور اتفاق سے کھیتی باڑی کا سارا کام جانتا تھا۔اس لئے کسان اسے اپنے پاس ملازم رکھنے کو تیار ہوگیا،کسان نے جب چغل خور سے تنخواہ کی بات کی تو اس نے کہا کہ آپ مجھے صرف روٹی کپڑا دے دیں اور یہ اجازت دے دیں کہ چھ ماہ بعد آپ کی صرف ایک چغلی کھالیا کروں۔کسان یہ سن کر پہلے تو بہت حیران ہواپھر دل میں سوچنے لگا کہ مفت میں نوکر مل رہا ہے،خالی روٹی کپڑے میں کیا برا ہے۔چھ ماہ بعد ایک چغلی کھالے گاتو میرا کیا بگاڑ لے گا؟چناچہ اس نے چغل خور کو ملازم رکھ لیا۔چھہ مہینے گزر گئے۔
کسان تو چغل خور کی بات کو بھول چکا تھا۔مگر چغل خور کو یہ بات یاد تھی،معاہدے کی رو سے وہ کسان کی چغلی کھاسکتا تھا۔
ایک روز جب کسان کھیتوں میں گیا ہوا تھا اور گھر میں اس کی بیوی اکیلی تھی۔ چغل خور کسان کی بیوی کے پاس گیااور ہمدردی جتاتے ہوئے کہنے لگاکہ کسان کو ڑھی ہوگیا ہے اور اس نے اپنی بیماری تم سے چھپائی ہوئی ہے۔ کسان کی بیوی پہلے تو حیران ہوئی مگر چغل خور نے اپنی الفاظوں سے اس کو قائل کر ہی لیااور کہا کہ کوڑھی آدمی کا جسم نمکین ہوجاتا ہے۔اگر تم جاننا چاہتی ہو کہ کسان کوڑھی ہوگیا ہے یا نہیں ہو تو تم اس کے جسم کوکاٹ کر دیکھ سکتی ہو۔کسان کی بیوی اس کی باتوں میں آگئی،اس نے یہ سوچا کہ اس طرح نوکر کے سچ جھوٹ کا پتہ لگ جائے گا۔وہ بولی کہ کل جب میں کسان کا کھانا لے کرکھیتوں میں جاؤنگی تو حقیقت کا پتا لگاؤں گی۔
چغل خور نے اب کھیتوں کا رخ کیا۔ فصل پک جانے کی وجہ سے کسان دو روز سے گھر نہیں گیا تھا۔چغل خور کسان کے پاس پہنچا اور اس سے بڑی رازداری کے ساتھ کہنے لگاکہ تم یہاں کھیتوں میں کام کررہے ہواور ادھر تمھاری بیوی پاگل ہوگئی ہے اور پاگل پن میں آدمیوں کو کاٹنے دورتی ہے۔کسان سوچ میں پڑگیا۔ چغل خور نے کہا کہ اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آرہاتو کل جب وہ کھانا لے کر آئے گی تو اس وقت دیکھ لینا۔
کسان کو اپنی بات پر قائل کرکے چغل خور کسان کے سالوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارا بہنوئی تمہاری بہن کو مار مار کرادھ موا کردیتا ہے اور تم ہو کہ اپنی بہن کی خبر تک نہیں رکھتے۔ کسان کے سالوں نے جب اس کی بات کا یقین نہیں کیاتو چغل خور کہنے لگا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں تو کل دوپہر کو جب تمھاری بہن کھانا لے کر کھیتوں میں جائے گی تو اس وقت تم خود دیکھ لیناکہ کسان تمھاری بہن کو کس طرح مارتا ہے۔ کسان کے سالے چغل خور کی باتوں میں آگئے اور کہنے لگے کہ اچھا کل ہم کھیت میں چھپ کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
چغل خور ان سے رخصت ہوکر کسان کے بھائیوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگاکہ تمہارے بھائی کے سالے ہر چوتھے روز آکر اسے مارتے پیٹتے ہیں اور تم ہو کہااپنے بھائی کی مدد کو نہیں آتے۔انہوں نے چغل خور کی بات پر شک کیا،تو وہ کہنے لگا کہ اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آرہا تو کل دوپہر کو کھیتوں میں آکر اپنے آنکھوں سے دیکھ لینا کہ کسان کے سالے اس کیسے مارتے ہیں۔ کسان کے بھائی بھی اس کی باتوں میں آگئے،ہم بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی کو کیسے ہاتھ لگاتے ہیں۔چغل خور ان سب سے یہ باتیں کرکے واپس آگیااور اپنے کام کاج میں اس طرح مصروف ہوگیاکہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلاکہ وہ کہاں گیا تھا اور کہاں سے آیا ہے۔
اگلے روز کسان کی بیوی کھانا لے کر کھیتوں میں گئی۔ کسان اسکے قریب ہونے سے ڈر رہا تھااور وہ کسان کے قریب ہونے کہ کوشش کررہی تھی تاکہ اس کے جسم کو کاٹ کردیکھ سکے کہ نمکین ہے یا نہیں۔جونہی وہ سالن اور روٹی زمین پر رکھ کر بیٹھی،کسان جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔یہ دیکھ کر کسان کی بھی بیوی بھی روٹیوں کہ چنگیر آگے بڑھانے کے بہانے ذرا قریب سرک آئی۔پھر جیسے ہی کسان نے روٹی کا لقمہ توڑنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایااس نے جھپٹ کر کسان کی کلائی پکڑلی اور اسے کاٹنے کے لئے منہ آگے بڑھایا۔ کسان اچھل کر دور ہٹ گیا اور اسے یقین ہوگیاکہ واقعی اس کی بیوی پاگل ہوچکی ہے اور کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔اٍدھر اس کی بیوی نے یہ دیکھاکہ کسان اس سے دور بھاگ رہا ہے۔تو اسے یقین آگیا کہ کسان واقعی کوڑھی ہوگیا ہے اور نوکر کی بات ٹھیک تھی۔
اس نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر کسان کی کلائی پکڑنے کی کوشش کی تو کسان نے ایک دم جوتا اتارا اور وہیں بیوی کو مارنا شروع کردیا۔قریبی کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے سالے باہر نکل آئے۔انہیں نوکر کی بات کا یقین آگیاکیونکہ ان کی نظر کے سامنے کسان ان کی بہن کو پیٹ رہا تھا۔وہ للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور کسان پر ٹوٹ پڑے۔ اس پر دوسرے کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے بھائیوں کو بھی نوکر کی بات کا یقین آگیا۔انہوں نے کھیت سے نکل کر کسان کے سالوں کو للکارا،اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے پر پل پڑے اور سب خون میں نہا گئے۔
آخرکار اردگرد کے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگوں نے آکر بیچ بچاؤ کرایا اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم سب اس طرح کیوں لڑ رہے تھے؟ تو سب نے اپنی اپنی بات بتائی ، جس پر یہ معلوم ہوا کہ ساری کارستانی چغل خور کی ہے۔ وہ سارے مل کرچغل خور کی تلاش میں نکلے لیکن چغل خور گاؤں چھوڑ کر جاچکا تھا۔
وہ دن اور آج کا دن،چغل خور کا کہیں پتہ نہیں چل سکا۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے آس پاس بہت سے چغل خور موجود ہیں جو ہر ممکن طریقے سے دوسروں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں کی باتوں میں آکر ہم اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں، جہاں تک ممکن ہوسکتے دوسروں کی باتوں پر کان نہ دھریں ورنہ کسان کی طرح آپ کا بھی ہنستا بستا گھر اجڑ جائے گا۔
Tags:
نانی اماں کی کہیانیاں