شارک کو ایک بڑے کنٹینر میں بند کر دیا اور جب کچھ اور چھوٹی مچھلیوں کو اس میں چھوڑا گیا تو شارک ان کو کچھ ہی لمحوں میں کھا گئی۔ اب ایملی جو ایک میرین بائیولوجسٹ ہے نے تجربے کے لیے اس کنٹینر کو درمیان میں سے ایک شیشے کی دیوار سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا،جب چھوٹی مچھلیوں کو دوسرے حصے میں چھوڑا گیا تو شارک نے پہلے کی طرح حملے کی کوشش کی پر شیشے کی دیوار کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ پر وہ بار بار کئی گھنٹوں تک شیشے سے سر ٹکراتی رہی۔
پھر تھک ہار کر اس نے سمجھوتا کر لیا۔ اگلے دن ایملی نے پھر چھوٹی مچھلیوں کو کنٹینر کے دوسرے حصے میں چھوڑا۔ شارک نے پھر کوشش کی پر اس دفعہ جلدی ہار مان لی۔ کچھ دن مزید یہی تجربہ دہرانے کے بعد ایک ایسا دن آیاکے شارک نے ایک دفعہ بھی کوشش نہ کی۔ایملی نے اگلے دن وہ شیشے کی دیوار ہٹا دی۔ اب حیران کن بات یہ کہ چھوٹی مچھلیاں شارک کے ارد گرد تیر رہی ہیں پر شارک ان سے بالکل بے پرواہ ہے۔ کیوں کی کچھ دن کی کوشش اور ناکامی نے اس کے لاشعور میں یہ بات ڈال دی کہ یہ چھوٹی مچھلیاں اس کی دسترس میں نہیں۔
بالکل انسان اسی طرح کچھ ناکامیوں سے مایوس ہو کر کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسے کیسے ہی مواقع کیوں میسر نہ آئیں وہ اپنی پرانی ناکامیوں کی وجہ سے دسترس میں موجود ہر موقع کو ٹھوکر مار دیتا ہے۔
Tags:
اصلاحی کہانیاں