مچھیرا اور موتی - سبق آموز کہانی - Qeemti Moti


مچھیرا اور موتی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا مچھیرا، اپنے کام میں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی کا شکار پرنہ جاتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت کاکہ عالم کہ جب تک پہلی شکارکی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شکار پر نہ جاتا۔ایک دن کی بات ہے کہ۔۔۔ مچھیرے کی بیوی اپنے شوہر کی شکارکردہ مچھلی کو چھیل کاٹ رہی تھی کہ 
اس نے ایک کہ حیرت ناک منظر دیکھا۔۔۔
 حیرت نے تو اس کو دنگ کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔
ایک چمکتا دمکتا موتی مچھلی کے پیٹ میں۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ دیکھو
تو، مجھے کیا ملا ہے۔۔۔ کیاا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی۔۔۔ کدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پیٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو میری پیاری بیوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس کوبیچ مچھلی کے علاوہ کچھ اور کھانا کھانے کو ملے گا۔۔۔مچھیرے نے بیوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے کے سنار کے پاس پہنچا۔۔۔

السلام علیکم۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی کے پیٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، میں دیکھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، یہ تو بہت عظیم الشان ہے۔۔۔ میرے پاس تو ایسی قیمتی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر، دکان اور سارا مال و اسباب ہی کیوں نہ بیچ ڈالوں، اس موتی کی قیمت پھر بھی ادا نہیں کرسکتا میں۔۔۔ تم ایسا کرو ساتھ والے شہر کے سب سے بڑے سنار کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی قیمت ادا کرسکے جاؤ اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔۔۔

مچھیرا موتی لے کر، ساتھ والے شہر کے سب سے امیر کبیر سنار کے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ کہہ سنایا۔۔۔ مجھے بھی تو دکھاؤ، میں دیکھتا ہوں ایسی کیا خاص چیز مل گئی ہے تمہیں۔۔۔اللہ اللہ ، پروردگار کی قسم ہے بھائی، میرے پاس کو خریدنے کی حیثیت نہیں ہے۔۔۔ لیکن میرے پاس اس کاایک حل ہے، تم شہر کے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ایسا موتی خریدنے کی اس کے پاس ضرور حیثیت ہوگی۔۔۔ مدد کرنے کا شکریہ، میں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔اور اب شہر کے والی کے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قیمتی متاع کے ساتھ، محل میں داخلے کی اجازت کا منتظر۔۔۔ اور اب شہر کے والی کے دربار میں اس کے سامنے۔۔۔ میرے آقا، یہ ہے میرا قصہ، اور یہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی کے پیٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا عدیم المثال چیز ملی ہے تمہیں، میں تو گویا ایسی چیز دیکھنے کی حسرت میں ہی تھا۔۔۔ لیکن کیسے اس کی قیمت کا شمار کروں۔۔۔

ایک حل ہے میرے پاس، تم میرے خزانے میں چلے جاؤ۔۔۔ اْدھر تمہیں 6 گھنٹے گزارنے کی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سکتے ہو لے لینا،شاید اس طرح موتی کی کچھ قیمت مجھ سے ادا ہوپائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جیسے مفلوک الحال مچھیرے کے لئے تو 2 گھنٹے بھی کافی ہیں۔۔۔ نہیں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سکتے ہو، اجازت ہے تمہیں۔۔۔ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر کے خزانے میں داخل ہوکر دنگ ہی رہ گیا، بہت بڑا اور عظیم الشان ہال کمرا، سلیقے سے تین اقسام اور حصوں میں بٹا ہوا، ایک قسم ہیرے، جواہرات اور سونے کے زیورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ایک قسم ریشمی پردوں سے مزّین اور نرم و نازک راحت بخش مخملیں بستروں سے آراستہ۔۔۔ 

اور آخری قسم کھانے پینے کی ہر اْس شئے سے آراستہ جس کو دیکھ کر منہ میں پانی آجائے۔۔۔مچھیرے نے اپنے آپ سے کہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جیسے غریب مچھیرے کے لئے تو بہت ہی زیادہ مہلت ہے یہ۔۔۔ کیا کروں گا میں ان 6 گھنٹوں میں آخر؟؟؟ خیر۔۔۔ کیوں نہ ابتدا کچھ کھانے پینے سے کی جائے؟؟؟آج تو پیٹ بھر کر کھاؤں گا، ایسے کھانے تو پہلے کبھی دیکھے بھی نہیں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ایسی توانائی بھی ملے گی جو ہیرے، جواہرات اور زیور سمیٹنے میں مدد دے۔۔۔اور جناب ہمارا یہ مچھیرا دوست خزانے کی تیسری قسم میں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اْس نے والی شہر کی عطاء کردہ مہلت میں سے دو گھنٹے گزار دیئے۔۔۔

اور وہ بھی محض کھاتے، کھاتے، کھاتے۔۔۔ اس قسم سے نکل کر ہیرے جواہرات کی طرف جاتے ہوئے،اس کی نظر مخملیں بستروں پر پڑی، اْس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ آج تو پیٹ بھر کر کھایا ہے۔۔۔ کیا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام لیا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع کرنے میں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ایسے پر تعیش بستروں پر سونے کا موقع بھی تو بار بار نہیں ملے گا، اور موقع کیوں گنوایا جائے۔۔۔

مچھیرے نے بستر پر سر رکھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔اْٹھ اْٹھ اے احمق مچھیرے،تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہوچکی ہے۔۔۔ ہائیں، وہ کیسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھیک سنا ہے،نکل ادھر سے باہر کو۔۔۔ مجھ پر مہربانی کرو، مجھے کافی وقت نہیں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے میں آئے 6 گھنٹے گزر چکے ہیں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہیرے جواہرات اکٹھے کرنا چاہتا ہے کیا؟؟؟

تجھے تو یہ سارا خزانہ سمیٹ لینے کے لئے کافی وقت دیا گیا تھا۔۔۔تاکہ جب ادھر سے باہر نکل کر جاتا تو ایسا بلکہ اس سے بھی بہتر کھانا خرید پاتا۔۔۔ اور اس جیسے بلکہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ لیکن تو احمق نکلا کہ غفلت میں پڑگیا۔۔۔ تو نے اس کنویں کو ہی سب کچھ جان لیا جس میں رہتا تھا۔۔۔ باہر نکل کر سمندروں کی وسعت دیکھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نکا لو باہر اس کو۔۔۔ نہیں، نہیں، مجھے ایک مہلت اور دو، مجھ پر رحم کھاؤ۔۔۔

Post a Comment

Yahan Comments Karein

Previous Post Next Post