ایک بادشاہ کی شادی کو عرصہ ہوگیا مگر گھر میں ولی عہد کی کمی ہی رہی۔ مقدر میں لکھا تھا اور اللہ نے ملکہ کی گود ہری کر دی ۔بیٹا پیدا ہوا تو بادشاہ کو یہ دیکھ کر چپ ہی لگ گئی کہ اسے پیدائشی معذوری تھی اور وہ ایک کان کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔بادشاہ نے اپنے سارے وزیر بلوا بھیجے اور ان سے مشورہ کیا کہ
اتنی بڑی سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالنے کیلئے پیدا ہونے والا یہ ولی عہد جب اپنے آپ کو یوں معذور پائے گا تو احساس محرومی کا شکار ہو جائیگا۔ کس طرح اس کی اس خامی پر قابو پایا جائے؟ وزیروں نے مشورہ دیا بادشاہ سلامت، یہ تو کوئی بات ہی نہیں، اعلان کرا دیجیئے کہ آج سے جو بھی بچہ پیدا ہو اس کا ایک کان کاٹ لیا جائے۔ شہزادے کے سارے ہمجولی اور اس کے سامنے پلنے والی ساری نسل جب ایک کان والی ہوگی تو شہزادے کے دل میں کسی قسم کی محرومی کا احساس ہی نہیں پیدا ہوگا۔حکم نافذ کر کے عملدرآمد شروع کرا دیا گیا، اگلے دسیوں سالوں میں مملکت میں ایک کان والی نسل دیکھنے کو ملی اور لوگ اس عادت اور تقلید میں رچ بس گئے۔ایک بار کہیں سے گھومتا پھرتا بھولا بھٹکا ایک نوجوان اس مملکت میں آن ٹپکا۔ لوگ دو کانوں والے لڑکے کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے، بچے اس عجیب الخلقت نوجوان کے پیچھے پڑ گئے اور دو کانوں دو کانوں والا کہہ کر چھیڑتے۔ اس نوجوان کو بھی اپنا آپ ایک عجوبہ لگنا شروع ہو گیا، تاکہ وہ ان لوگوں میں تماشہ بن کر نا رہے اُس نے اپنا ایک کان ہی کٹوا لیا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پوری کی پوری خلقت ہی ایسی عقلی معذور بن جائے؟جی، انسانی تاریخ میں ایسا ہزاروں بار ہو چکا ہے۔ لوگوں کی اسی کج فہمی اور ٹیڑھی عقلی معذوری کی اصلاح کیلیئے ہی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بار بار اپنے نبی بھیجتے تھے جیسے:سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم شرک کی معذوری کا شکار تھی، ایک اکیلے ابراہیم )علیہ السلام( ان میں اور ان کو بہت ہی عجیب دکھائی دیتا تھا۔سیدنا لوط علیہ السلام کی پوری کی ہوری قوم فطرت کی مخالف سمت میں چلنے والی تھی، ایک اکیلے لوط )علیہ السلام( ان میں عجیب دکھائی دیتے تھے کیونکہ وہ ان جیسا کام نہیں کرتے تھے.سیدنا شعیب علیہ السلام کی پوری کی پوری قوم سود اور چور بازاری میں ایسی مبتلاء تھی کہ ان میں اکیلے شعیب )علیہ السلام( بہت ہی انوکھے نظر آتے تھے. دیکھیئے: فقہ میں ایک بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ:لوگوں کا کسی ایک بات پر متفق ہوجانا اسے حلال نہیں بنا دیا کرتا۔غلط ہمیشہ غلط رہے گا بھلے ساری مخلوق اسے کرنا شروع کردےاور صحیح ہمیشہ صحیح رہے گا بھلے مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اسے کرنے پر آمادہ نا ہو۔ بات کان کٹوا لینے کی نہیں ہے۔ اگر تجھے یقین ہے کہ تو ٹھیک ہے تو پھر ان کو راضی کرنے کیلیئے اپنے سچ سے نا پھر۔اگر وہ اپنے غلط پر شرمندہ نہیں ہیں تو تو کاہے کو اپنے ٹھیک ہونے پر شرماتا ہے؟ایک آخری بات کان کھول کر سُن لے، وہ جو کہتے ہیں ناں کہ سارے کے سارے لوگ ایسے کہتے ہیںجب بھی قران میں سارے کے سارے لوگوں کا کبھی ذکر آیا ہے ناں، تو ان “صفتوں” کو بتاتے ہوئے آیا ہے کہ: وہ تو عقل ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو علم ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو شکر ہی نہیں ادا کرتے۔
اتنی بڑی سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالنے کیلئے پیدا ہونے والا یہ ولی عہد جب اپنے آپ کو یوں معذور پائے گا تو احساس محرومی کا شکار ہو جائیگا۔ کس طرح اس کی اس خامی پر قابو پایا جائے؟ وزیروں نے مشورہ دیا بادشاہ سلامت، یہ تو کوئی بات ہی نہیں، اعلان کرا دیجیئے کہ آج سے جو بھی بچہ پیدا ہو اس کا ایک کان کاٹ لیا جائے۔ شہزادے کے سارے ہمجولی اور اس کے سامنے پلنے والی ساری نسل جب ایک کان والی ہوگی تو شہزادے کے دل میں کسی قسم کی محرومی کا احساس ہی نہیں پیدا ہوگا۔حکم نافذ کر کے عملدرآمد شروع کرا دیا گیا، اگلے دسیوں سالوں میں مملکت میں ایک کان والی نسل دیکھنے کو ملی اور لوگ اس عادت اور تقلید میں رچ بس گئے۔ایک بار کہیں سے گھومتا پھرتا بھولا بھٹکا ایک نوجوان اس مملکت میں آن ٹپکا۔ لوگ دو کانوں والے لڑکے کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے، بچے اس عجیب الخلقت نوجوان کے پیچھے پڑ گئے اور دو کانوں دو کانوں والا کہہ کر چھیڑتے۔ اس نوجوان کو بھی اپنا آپ ایک عجوبہ لگنا شروع ہو گیا، تاکہ وہ ان لوگوں میں تماشہ بن کر نا رہے اُس نے اپنا ایک کان ہی کٹوا لیا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پوری کی پوری خلقت ہی ایسی عقلی معذور بن جائے؟جی، انسانی تاریخ میں ایسا ہزاروں بار ہو چکا ہے۔ لوگوں کی اسی کج فہمی اور ٹیڑھی عقلی معذوری کی اصلاح کیلیئے ہی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بار بار اپنے نبی بھیجتے تھے جیسے:سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم شرک کی معذوری کا شکار تھی، ایک اکیلے ابراہیم )علیہ السلام( ان میں اور ان کو بہت ہی عجیب دکھائی دیتا تھا۔سیدنا لوط علیہ السلام کی پوری کی ہوری قوم فطرت کی مخالف سمت میں چلنے والی تھی، ایک اکیلے لوط )علیہ السلام( ان میں عجیب دکھائی دیتے تھے کیونکہ وہ ان جیسا کام نہیں کرتے تھے.سیدنا شعیب علیہ السلام کی پوری کی پوری قوم سود اور چور بازاری میں ایسی مبتلاء تھی کہ ان میں اکیلے شعیب )علیہ السلام( بہت ہی انوکھے نظر آتے تھے. دیکھیئے: فقہ میں ایک بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ:لوگوں کا کسی ایک بات پر متفق ہوجانا اسے حلال نہیں بنا دیا کرتا۔غلط ہمیشہ غلط رہے گا بھلے ساری مخلوق اسے کرنا شروع کردےاور صحیح ہمیشہ صحیح رہے گا بھلے مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اسے کرنے پر آمادہ نا ہو۔ بات کان کٹوا لینے کی نہیں ہے۔ اگر تجھے یقین ہے کہ تو ٹھیک ہے تو پھر ان کو راضی کرنے کیلیئے اپنے سچ سے نا پھر۔اگر وہ اپنے غلط پر شرمندہ نہیں ہیں تو تو کاہے کو اپنے ٹھیک ہونے پر شرماتا ہے؟ایک آخری بات کان کھول کر سُن لے، وہ جو کہتے ہیں ناں کہ سارے کے سارے لوگ ایسے کہتے ہیںجب بھی قران میں سارے کے سارے لوگوں کا کبھی ذکر آیا ہے ناں، تو ان “صفتوں” کو بتاتے ہوئے آیا ہے کہ: وہ تو عقل ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو علم ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو شکر ہی نہیں ادا کرتے۔