پالتو عفریت


پالتو عفریت


وہ جمعے کا دن تھا ۔میلے کی رونق عروج پر تھی ۔سب سے زیادہ رش ریچھ اور کتوں کی لڑائی دیکھنے والوں کا تھا۔مقامی لوگوں نے پہلی بار اتنا قوی ہیکل اور طاقتور ریچھ دیکھا تھا۔عام کتے تو اسے دیکھ کر ہی اپنی دم ٹانگوں میں دبا لیتے تھے ۔
لڑائی شروع ہوئی چند ہی لمحوں میں مضبوط رسے سے بندھے ریچھ نے حملہ آور کتوں کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔دونوں کتے زخمی حالت میں دور کھڑے خوفزدہ حالت میں غرا رہے تھے ۔کتوں کے مالک نے پچکار کر دونوں کتوں کے گلے میں پڑے پٹّے میں رسا ڈالااور انھیں ریچھ سے دور لے گیا ۔اس کے بعد کلم اللہ نامی شخص کی باری آئی ۔اس کے دونوں کتے بھی بس ریچھ کا ایک ایک تھپڑ برداشت کر سکے تھے ۔ان کتوں کی حالت دیکھتے ہی باقی لوگ اپنے کتے ریچھ کے مقابل لانے سے گریز کر رہے تھے ۔اسی اثنا ءمیں ملک صبغت اللہ اپنے کتوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے ۔اس کے پاس بوہلی نسل کے پانچ جسیم اور بھیانک چہرے والے کتے تھے جنھیں ملک کے پانچ ملازموں پکڑا ہوا تھا ۔ملک کو دیکھتے ہی کچھ خوشامدیوں نے آگے بڑھ کر ریچھ کی خوں خواری کے بارے مطلع کیا ۔
”دیکھ لیتے ہیں بھئی ؟....دیکھ لیتے ہیں ؟“ملک نے اپنی گھنی مونچھوں کو تاو¿ دیتے ہوئے کہا ۔
ریچھ والے نے بھی ہاتھ باندھ کر ملک کو سلام کیا ۔
سر کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے ملک ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کی طرف متوجہ ہوا ۔
”چل بھئی خدا بخشا!....ذرا اپنے کتوں کو میدان میں اتار ۔“
”ملک صاحب !....ریچھ کچھ زیادہ ہی بڑا ہے ؟“خدا بخش شاید اپنے کتوں کی بَلّی نہیں دینا چاہتا تھا ۔
”مقابلے کا مزہ ہی تب آتا ہے جب مدِّ مقابل برابر کا ہو ؟“ملک ابھی تک ریچھ کو کوئی خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا ۔
”تو بس ملک صاحب !....آپ کے شیروں ہی کا انتظار ہے عوام کو ؟“ خدا بخش نے گیند ملک کے کورٹ میں پھینک دی تھی ۔
”ابے نورے !....موتی کو آزاد کر ذرا ۔“ملک نے جوش میں آ کر اپنے ملازم کو آواز دی ۔
”جی ملک صاحب !“نورے نامی ملازم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی رسی موتی نامی کتے کے گلے سے نکال دی ۔کتا خطرناک انداز میں غراتا ہوا ریچھ کی طرف بڑھا ۔ ریچھ پہلے سے تیار تھا ۔اس سے پہلے کہ کتا ریچھ کے جسم میں اپنے دانت گاڑھ پاتا ریچھ کا زوردارتھپڑ کتے کے منہ پر پڑا اور کتا اڑتا ہوا دور جا گرا تھا ۔گرتے ہی کتا دوبارہ اٹھا اور ایک بار پھر ریچھ کی طرف بڑھا ۔اس مرتبہ ریچھ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں کتے کا گلا پکڑا اور اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کتے کو لٹکا دیا ۔یقینا وہ کتے کو اسی حالت میں لٹکا کر مار دینا چاہتا تھا ۔اپنے کتے کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر ملک نے اپنے ملازموں کو اشارہ کیا کہ وہ تمام کتوں کو چھوڑدیں ۔مستعد ملازموں نے حکم کی تکمیل میں دیر نہیں لگائی تھی ۔چار قوی ہیکل کتے گولی کی رفتار سے ریچھ کی طرف بڑھے ۔دو ریچھ کی ٹانگوں سے لپٹ گئے تھے جبکہ دو نے چھلانگیں لگا کر ریچھ کے گلے میں دانت گاڑھنے کی کوشش کی ۔
ریچھ نے ہاتھوں میں تھامے کتے کو نیچے پھینکا اور اپنے بدن سے لپٹے کتوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
ریچھ کا مالک ہاتھ باندھ کر ملک کے سامنے آیا ۔
”ملک جی !....ایک ساتھ پانچ کتے ؟....یہ تو زیادتی ہے ؟“
”زیادتی کے کچھ لگتے ؟....اپنا ریچھ دیکھا ہے ؟ہاتھی ہے پورا ہاتھی ۔اس کے لیے تو دس کتے بھی کم ہیں ۔“
خانہ بدوش حتمی لہجے میں بولا۔”ٹھیک ہے ملک صاحب !....پھر مقابلا ختم کرائیں ۔میں نے اپنا ریچھ نہیں لڑانا ۔“
”اتنی آسانی سے تو مقابلہ ختم نہیں ہوگا ؟“ملک نے اپنی مونچھوں پر تاو¿ دیا۔ ”تمھارے ریچھ نے چار کتوں کا کباڑا کیا ہے ؟“
”ملک صاحب !....یہ زیادتی کر رہے ہیں آپ ؟“خانہ بدوش کے لہجے میں بغاوت کا عنصر نمایاں تھا ۔
”گویا تم دھمکی دے رہے ہو ؟“ملک صبغت اللہ نے تیکھے لہجے میں پوچھا ۔
مگر خانہ بدوش کے کچھ جواب دینے سے پہلے ملک کے دو کتے اڑتے ہوئے ان کے قریب آ گرے تھے ۔تیسرا کتا ریچھ کے قدموں ہی میں پڑا تڑپ رہا تھا۔ دو کتے ابھی تک ریچھ سے لپٹے تھے ۔ان میں سے ایک کتے نے ریچھ کی تھوتھنی کو جبڑے میں پکڑا ہوا تھا ۔اور پھر اس کتے سے اپنی تھوتھنی چھڑانے کے لیے ریچھ نے اپنے سر کو زور دار جھٹکا دیا اور اس کی رسی ٹوٹ گئی ۔آزاد ہوتے ہی ریچھ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کتے کو پکڑا وراپنے چہرے سے پرے کھینچ کر کتے کو دور پھینک دیا ۔ آخری کتے کی گردن ریچھ نے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر جھٹکے سے توڑی اور پھر غراتا ہوا ایک طرف کو بھاگا ۔ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی تھی ۔ریچھ کا مالک سراسیمہ ہو کر ریچھ کی جانب بڑھا ۔ڈرے ہوئے خوفزدہ ریچھ نے اسے بالکل ہی خاطر میں نہیں لایا تھا ۔ ریچھ کے ایک ہی تھپڑ نے اسے بے ہوش ہو کر نیچے گرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔بھاگتے ہوئے ریچھ کا رخ بالکل میری جانب تھا ۔ریچھ کے قریب پہنچتے ہی میں نے ایک جانب چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی ۔گو اس طرح میری کلائیوں اورکہنیوں پر اچھی خاصی چوٹ آئی تھی مگر میں ریچھ کی زد میں آنے سے بچ گیا تھا ۔میرے دائیں بائیں کھڑے آدمی اتنی تیزی سے حرکت نہیں کر سکے تھے ریچھ انھیں رگیدتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا ۔
ریچھ کا تماشا دیکھنے والے تو مخالف سمت میں بھاگ کھڑے تھے ،لیکن جو لوگ اس عفریت سے بے خبر تھے وہ اس کی لپیٹ میں آ کر شدید یا ہلکے طور پر زخمی ہو گئے تھے ۔ملک صبغت اللہ حیران و پریشان اپنے کتوں کو دیکھ رہا تھا ۔اس کے دو کتے تو مر چکے تھے جبکہ تین کتے شدید زخمی تھے ۔
میلہ گاو¿ں کے شرقی جانب لگا ہوا تھا ۔ریچھ جنوب کی سمت بھاگا تھا ۔گو اس سمت آبادی نسبتاََ کم تھی مگریہ وجہ ریچھ کے خطرے کو کم نہیں کر سکتی تھی۔کافی چرواہے اس جانب بھیڑ بکریوں کو چرانے لے جاتے تھے ان میں سے کوئی غریب بھی ریچھ کی لپیٹ میں آ سکتا تھا ۔ریچھ کے غائب ہوتے ہی لوگ زخمیوں کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔ ریچھ کے مالک کو بھی ہوش میں لایا گیا ۔اس کے دو تین دانت گر گئے تھے ۔منہ سے خون تھوکتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔ اسے ریچھ کے جانے کی سمت بتا کر لوگوں نے ریچھ کے پیچھے جانے کو کہا تاکہ اسے قابو کر سکے مگر وہ سخت خوف زدہ ہو گیا تھا ۔
”نہیں ریچھ ڈر گیا ہے اور ایسی حالت میں کسی کو نہیں پہچان رہا ۔“خانہ بدوش ریچھ کے پیچھے جانے پر آمادہ نہیں تھا ۔
”امین دامانی !....“ملک صبغت اللہ نے مجھے آواز دی ۔
”جی چچا جان !....“میں اس کی طرف متوجہ ہوا ۔میرے لہجے میں اتنا ہی ادب شامل تھا جتنا اپنے سے کسی بھی بڑے کے لیے ہونا چاہیے ۔ملک صبغت اللہ ابو جان کا بہت گہرا دوست تھا ۔
”بیٹا !....جلدی کرو ،مجھے خطرہ ہے ریچھ کسی کو جانی نقصان نہ پہنچا دے ۔“
”ٹھیک ہے چچا جان !....میں گھر سے رائفل لے آو¿ں ۔“میں نے فوراََ تائیدی انداز میںسرہلایا۔اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی ۔
مجھے بدحواسی کے عالم میں دیوار سے لٹکی رائفل اور شکاری تھیلااتارتے دیکھ کر امی جان پریشان ہو گئی تھیں۔
”بیٹا !....خیر تو ہے ۔اس نے گھبرا کر پوچھا۔
”فکر نہ کریں، خیریت ہے ماں جی !....باقی کہانی واپسی پر سناﺅں گا ۔“ میں نے بھاگتے بھاگتے انھیں جواب دیا اور گھر سے باہر آ گیا ۔
میرا گھر گاﺅں کے خشک نالے کے کنارے ہی پر واقع تھا ۔نالے میں اتر کر میں آ گے بڑھنے لگا ۔سڑک میں نے بڑی پل کے نیچے سے عبور کی ۔یہ سڑک ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے پشاور کو جاتی ہے ۔خشک نالے کے اندر رہتے ہوئے میں آ گے بڑھتا گیا ۔خشک نالہ مغرب سے مشرق کی جانب بڑھتا ہے ۔زیادہ بارشیں ہونے کی صورت میں پانی جب سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو گاﺅں سے پانی کی نکاسی اسی نالے کی مرہون منت ہوتی ہے ۔پانی کا بہاﺅ بھی مغرب سے مشرق کی طرف ہے ۔ نالے کے شمالی اور جنوبی دونوں کناروں پر لوگوں نے گھر بنائے ہوئے ہیں ۔لیکن پل عبور کرنے کے بعد جنوبی سمت کوئی گھر نہیں بنا البتہ شمال کی جانب پھر بھی کافی آبادی موجود ہے ۔شمالی آبادی کی حدود ختم کرتے ہی نالے میں ہلکا سا موڑ ہے نالہ جنوب کی سمت مڑ کر پھر مشرق کی جانب ہی بہنے لگتا ہے ۔میں جونھی وہ موڑ مڑا مجھے ایک آدمی سامنے سے دوڑتا ہوا نظر آیا ۔وہ مجھ سے پچاس ساٹھ قدم ہی دور تھا ۔مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کا رخ میری جانب ہو گیا ۔
”را....را ....ریچھ ....ریچھ ....“وہ دور ہی سے ہکلاتے ہوئے پکارنے لگا ۔میں اسے پہچانتا تھا ۔فیاض محمد میراثی کا بیٹا مطیع اللہ تھا گاﺅں بھر میں موتی میراثی کے نام سے مشہور تھا ۔اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر اس نے گڈریا بننا پسند کیا تھا ۔لیکن اس واہیات پیشے کے نام کا سابقہ اپنے نام سے نہیں ہٹا سکا تھا ۔
”ریچھ نے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچایا؟“میں نے رکتے ہوئے پر تشویش لہجے میں پوچھا ۔
”مجھے نہیں معلوم امین بھائی !....“میرے قریب رک کر وہ چڑھی ہوئی سانسوں سے بولا ۔”میں اپنے ریوڑ کو واپس لا رہا تھا ۔یہ طوفان بلاخیز کی طرح گاﺅں کی طرف سے نمودار ہوا ۔اسے دیکھتے ہی میں بد حواس ہو کر دوڑپڑا ۔پیچھے نہ جانے اس نے میرے ریوڑ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگایہ اللہ پاک ہی کو معلوم ہے ۔میں تو بس جان بچانے کے لیے بھاگ پڑا ۔اور ابھی میرا ارادہ آپ کی طرف ہی جانے کا تھا ۔“
حالانکہ چرواہے بھیڑئے وغیرہ کے ڈر سے کبھی نہیں بھاگتے اور اپنے پاس موجود کلھاڑی وغیرہ سے بھیڑیوں کا مقابلہ کر لیتے ہیں مگر ریچھ کو دیکھ کر موتی کو اپنی موت نظر آئی گئی تھی اس لیے اس نے بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی تھی ۔
میں نے بے چینی سے پوچھا ۔”یہاں سے کتنی دور ہو گا ؟“
”کلو میٹر بھر دورہی مجھ سے ٹکراﺅ ہوا ہے ۔“اس نے اندازے سے بتایا۔
اور میں ایک بار پھر بھاگ پڑا ۔موتی اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اس نے میرے ساتھ آنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔
میں نے نالے کے کنارے کے اوپر سے بھاگ کر آگے بڑح رہا تھا کہ وہاں سے مجھے تمام علاقہ زیادہ واضح نظر آ رہا تھا ۔نالے کے اندر اترنے کی وجہ سے یہ دکھاﺅ محدود ہو جاتا ۔کافی عرصے بعد مجھے یوں بھاگنا پڑ رہا تھا اس لیے میرا سانس پھولا ہوا تھا ۔
گاﺅں سے قریباََ ڈیڑھ دو کلومیٹر دور خشک نالے پر کاشت کاروں نے ایک مٹی کا چھوٹا سا بند بنایا ہوا جس میں بارش کا پانی اکھٹا ہو کر نزدیکی زمینوں کو سیراب کرتا ہے ۔البتہ سیلابی پانی کو روکنے میں بند ناکام رہتا ہے ۔بند کے بعد بھی نالہ مشرقی جانب ہی بہتا رہتا ہے ۔بند میں ہر وقت تھوڑا بہت بارشی پانی موجود رہتا ہے اس پانی کی وجہ سے وہاں درختوں کی بہتات ہے اور ایک چھوٹا موٹا جنگل سا بن گیا ہے ۔
بند کے قریب پہنچتے وقت مجھے بھیڑ بکریاں بدحواسی میں دوڑتی ہوئی نظر آئیں شاید وہ موتی میراثی کا ریوڑ تھا ۔بھیڑ بکریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے اپنی رفتار آہستہ کی اور پیدل چلتے ہوئے اپنا سانس بحال کرنے لگا ۔پھولے سانسوں کے ساتھ میں درست نشانہ نہ لگا پاتا ۔
اچانک ایک تیز چیخ میرے کانوں میں پڑی اور درختوں کے جھنڈ سے ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا بھاگتا ہوا برآمد ہوا ،اس سے تین چار گز پیچھے وہ سیاہ عفریت بھی تیز رفتاری سے اس کا پیچھا کرتی آ رہی تھی ۔رائفل کاک کرتے ہوئے میں نے گھٹنا زمین پر ٹیک کر ریچھ کا نشانہ سادھا لیکن لڑکے کے بیچ میں آنے کی وجہ سے میں ٹریگر نہیں دبا سکا تھا ۔
لڑکے کی نظر بھی مجھ پرپڑ گئی تھی اور اس کا رخ بھی میری جانب ہو گیا ۔
میں نے اسے چیخ کر سیدھا جانے کو کہا تاکہ لڑکے کے آگے گزرتے ہی میں ریچھ کو نشانہ بنا سکوں ۔مگر خوف زدہ لڑکے کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی تھی ۔یا شاید آئی بھی تھی تو وہ سمجھنا نہیں چاہتا تھا ۔یوں بھی جب ایسی سیاہ بلا انسان کے پیچھے پڑی ہو تو انسان میں سوچنے سمجھنے کی قوت باقی نہیں رہتی ۔
اگر میں دائیں بائیں ہٹنے کی کوشش کرتا تب بھی لڑکے نے میری جانب ہی رخ کرنا تھا ۔ایک عجیب صورت حال کا سامنا تھا مجھے ۔جلد ی میں میں کوئی فیصلہ بھی نہیں کرپایا تھا ۔لڑکا ۔”بچاﺅ.... بچاﺅ ۔“کی آوازیں لگاتا میرے پاس سے گزرتا چلا گیا ۔ریچھ کی نظر مجھ پر پڑ چکی تھی ۔ایک دم رکتے ہوئے وہ اپنی پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا ۔یہ ریچھ کی عادت ہے کہ وہ اپنے شکار پر حملہ کرنے سے چند قدم پہلے انسان کی طرح کھڑا اپنی دو ٹانگوں پر کھڑاہوجا تا ہے ۔بھاگنے کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی قریب آگیا تھا ۔ریچھ اور اپنے بیچ لڑکے کی رکاوٹ دور ہوتے ہی میں نے جلدی کی شست لے کر ٹریگر دبا دیا ۔زوردار دھماکے سے گولی ریچھ کے بازو میں لگی ۔ایسی بلا کے لیے بازو میں لگنے والی گولی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔میں ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتا تھا کہ اسے سر میں گولی مارتا یا خاص دل میں گولی اتار دیتا ۔اور اس وقت میں شکاری مچان میں نہیں بیٹھا تھا کہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ۔وہ کالا عفریت مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر بھیانک آوازیں نکالتا ہوا میری جانب بڑھ رہا تھا ۔
میرے دوبارہ رائفل کاک کرنے سے پہلے وہ میرے قریب پہنچ گیا تھا ۔ وحشیانہ انداز میں ہاتھ گھما کر اس نے میری چھاتی کو نشانہ بنایا مگر دونوں ہاتھوں میں پکڑی ہوئی رائفل کی وجہ سے میری چھاتی اس کی ضرب سے محفوظ رہی تھی ۔اس کے باوجود میں قریباََ اڑتا ہوا چند گز دور موجود گھنی جھڑ بیری میں جا گرا ۔ چھوٹے چھوٹے لاتعداد کانٹے میرے بدن میں پیوست ہو گئے تھے لیکن جب جان پر بنی ہوتو چھوٹے موٹے زخموں کی پروا انسان کو نہیں ہوتی ۔لڑکے کی بے وقوفی کی وجہ سے مجھے جان کے لالے پڑ گئے تھے ۔رائفل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری تھی ۔
بپھرا ہوا ریچھ ایک مرتبہ پھر میری جانب بڑھا ۔اس کے بازو میں موجود گولی کے زخم میں بھی شاید تکلیف شروع ہو گئی تھی کہ اس کی غراہٹوں میں بے چینی نمودار ہوئی۔ اس مرتبہ اگر وہ میرے قریب آ جاتا تو میری زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔ٹارزن تو میں تھا نہیں کہ ریچھ سے ہاتھا پائی کر کے اسے پچھا ڑ دیتا ۔اب ایک ہی صورت تھی کہ میں اس سے دور بھاگ کر اپنی جان بچاتا ۔
ایک زوردار جھٹکے سے میں نے خود کو جھڑ بیری کے ننھے ننھے تیز دھار اور ٹیڑھے کانٹوں کی گرفت سے آزاد کرایا اور ایک طرف کو بھاگا ۔رائفل اٹھانے کا وقت نہیں تھا ۔نہ ریچھ مجھے ایسی مہلت دینے کو تیار تھا ۔
مجھے بھاگتے دیکھ کر ریچھ بھی چاروں ٹانگوں پر ہو کر میرے پیچھے بھاگا ، کیونکہ دو ٹانگوں پر ریچھ اتنی تیزی سے نہیں بھاگ سکتا ۔شکار کو گھیرنے کے لیے وہ بھی عام چوپائیوں کی طرح چاروں ٹانگیں استعمال کرتا ہے ۔
میں نے جھاڑیوں کے گرد ایک لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ اسی جگہ پر پہنچا میری کوشش تھی کہ کسی طرح اپنی رائفل اٹھا لوں ۔رائفل اٹھا کر اگر میں ریچھ سے چند گز کا فاصلہ بھی پیدا کر لیتا تو اسے گولی کا نشانہ بنا سکتا تھا ۔
بھاگتے بھاگتے میں رائفل کے قریب پہنچا اور ایک لمحے کے لیے اپنے پاﺅں کی حرکت روکتے ہوئے میں نے جھک کر رائفل کو ہاتھ ڈالا ،مگر میں ریچھ کی رفتار کا صحیح انداز نہیں لگا پایا تھا ۔رائفل اپنی گرفت مضبوط کرتے ہی میں جونھی سیدھا ہوا مجھے لگا آسمان مجھ پر آ گرا ہو۔دوڑتا ہوا ریچھ پوری قوت سے مجھ سے ٹکرایا اور میں اڑ کر لڑھکیاں کھاتا ہوادور جا گرا ۔دامان کی زمین کافی سخت ہے مگر جس جگہ میرا ریچھ سے ٹاکرا ہورہا تھا وہاں کی زمین میں مٹی اور ریت دونوں شامل ہیں یوں زمین اتنی سخت نہیں تھی ۔ورنہ جس طرح اڑتا ہوا میں نیچے گرا تھا میری دوتین ہڈیوں کا ٹوٹنا تو بنتا تھا ۔ رائفل ایک بار پھر میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئی تھی ۔ریچھ کے قریب آنے سے پہلے میں نے لیٹے لیٹے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیکے اور زقند بھر کر ریچھ سے تھوڑا دور ہوا اس کے ساتھ ہی کمر سے بندھے چمڑے کے ہولسٹر سے تیز دھار والا شکاری خنجر نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا ۔گو اس خنجر سے ریچھ کا مقابلہ کرنے والا شاید ٹارزن کے بعد میں دوسرا آدمی تھا ۔لیکن اس وقت اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے اور اس وقت تو میں گردن تک دلدل میں دھنسا ہوا تھا ۔
ریچھ میرے قریب پہنچ گیا تھا ۔اور زخمی ریچھ جتنا خطرناک ہوتا ہے اس کا اندازہ کوئی شکاری ہی لگا سکتا ہے ۔ریچھ کے سیدھا ہونے سے پہلے میں نے پوری قوت سے اپنے دائیں بازو کو حرکت ،نشانہ ریچھ کی گردن تھا ۔لیکن ریچھ کے حرکت کرنے اور میرے تیزی سے ہاتھ چلانے کی وجہ سے خنجر ریچھ کے بائیں کندھے میں پیوست ہو گیا تھا ۔
ریچھ کی تیز غراہٹ ابھری اور اور میرے خنجر واپس کھینچنے سے پہلے اس نے جھٹکے سے اپنا کندھا پیچھے کھینچا ،خنجر اس کے جسم ہی میں پیوست رہ گیا تھا ۔اس کے ساتھ ہی ریچھ کا دایاں ہاتھ گھوما ۔اپنی چھاتی کو اس بھیانک ضرب سے بچانے کے لیے میں نے ایک دم اپنا رخ موڑا ۔ریچھ کا زور دار ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان لگا اور میں ایک بار پھر اچھل کر دور جا گرا تھا ۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے حلق کے راستے میرا دل باہر آگرے گا ۔ریچھ کی یہ ضرب کھا کر میں اس قابل نہیں رہا تھا کہ اٹھ کر بھاگ سکوں ۔اب میرا بچنا ایک کرامت ہی ہو سکتی تھی ۔
میں نے اپنے پشت پر بندھے تھیلے کو ٹٹولا جس میں ایک چھوٹے دستے کی تیز دھار کلھاڑی رکھی ہوتی تھی ،لیکن نہ جانے بھاگتے ہوئے کس وہ تھیلا مجھ سے گر گیا تھا۔میں زیر لب کلمہ شہادت دہرانے لگا ۔اسی وقت اچانک میرے کانوں میں کتوں کے بھونکنے کی آواز پڑی ۔دو چھوٹے قد کے کتے تیز رفتاری سے ریچھ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔کتوں کے بھونکنے کی آواز سن کر ریچھ کی حرکت میں ایک لمحے کے لیے ٹھہراﺅ آیا اور وہ کتوں سے نبٹنے کے لیے ان کی طرف مڑا ۔
بعد میں پتا چلا کہ وہ دونوں کتے اسی خالد نامی لڑکے کے تھے جو ریچھ کے آگے بھاگ رہا تھا ۔مجھے ریچھ سے برسرپیکار دیکھ کر ہمت کر کے اپنے کتوں کو بلالایا تھا۔
ریچھ کو کتوں کی طرف متوجہ دیکھ کر میں نے رائفل کی تلاش میں نظریں گھمائیں ۔یہ دیکھ کر میرا دل بلیوں اچھلنے لگا تھا کہ رائفل مجھ سے دو تین فٹ دور پڑی تھی ۔زمین سے اٹھنے کے بہ جائے میں کروٹیں لیتا ہوا رائفل کے قریب پہنچا ۔رائفل کو اٹھا کر کاک کرتے ہوئے میں نے ریچھ کی طرف دیکھا اس وقت ایک کتا چھلانگ لگا کر ریچھ کی گردن سے لپٹا تھا ۔کتے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر ریچھ نے دور اچھالا اسی وقت دوسرا کتا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا تھا ۔ایک ٹانگ کی مدد سے اس کتے کو بھی ریچھ نے دور جھٹکا ۔اس وقت تک میں رائفل سیدھی کر چکا تھا ۔ٹریگر دباتے ہی زور دار دھماکا ہوا اور گولی ریچھ کے دونوں کندھوں کے درمیان پیوست ہو گئی ۔وہ کالادیوغراتے ہوئے میری جانب مڑا ۔کتے زیادہ زخمی نہیں ہوئے تھے ۔لیکن اب وہ ریچھ سے ڈر کر دور دور ہی سے بھونک رہے تھے ۔
ریچھ کافی زخمی ہوگیا تھا اور اس حالت میں وہ پہلے سے بھی خطرناک ہو گیا تھا ۔غضب ناک انداز میں غراتے اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے ریچھ میری جانب لپکا ۔میں رائفل کو ایک بار پھر کاک کر چکا تھا ۔ریچھ کے تیزی سے حرکت کرنے کی وجہ سے میں نے ٹریگر پر رکھی انگلی پیچھے کو نہیں کھینچی تھی ۔جونھی میرے قری آکر ریچھ نیچے کو جھکا ،میں نے فوراََ ٹریگر دبایا اور کروٹ لیتے ہوئے ایک طرف کو سرک گیا ۔ایک شکاری کی چار پانچ فٹ سے چلائی ہوئی گولی کے خطا جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔گولی ریچھ کے ماتھے میں لگی اور وہ منہ کے بل اسی جگہ گرا جہاں کچھ دیر پہلے میں لیٹا تھا ۔دو تین بار ہاتھ پاﺅں جھٹک کر اس کی حرکت بتدریج سکون میں ڈھل گئی ۔
خالد بھاگ کر میرے قریب آ گیا تھا ۔
”چچا جان !....آپ ٹھیک ہیں ؟“اس نے میرے ہاتھ سے رائفل لے کر ایک جانب رکھ دی ۔
”شاباش بیٹا !....“میں نے اس کی ہمت کی داد دیتے ہوئے پوچھا ۔”تم یہاں کیا کر رہے تھے ۔“وہ میرا دور پار کا رشتا دار تھا ۔اس کے والد مشتاق سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے ۔اور وہ بھٹے پر اینٹیں بنانے کا کام کرتا تھا اس لیے اسے وہاں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئے تھی ۔
وہ تفصیل بتلاتے ہوئے بولا ۔”چچا جان !....جمعہ کے دن بھٹے پر چھٹی کرتا ہوں اور آج میں خرگوش کے شکار کے لیے آیا تھا ۔اپنے کتوں کو میںنے خرگوش کے پیچھے بھگایا کتے مجھ سے دور ہوئے اور اسی وقت یہ بلا جھاڑیوں کی اوٹ سے نکل کر میری طرف بھاگی ۔پس میں جان بچانے کے لیے بھاگ پڑا ۔اور جب اس کا ٹاکرا آپ سے ہوا تو میں نے فوراََ واپس جا کر اپنے کتوں کو بلالایا ۔مجھے لگ رہا تھا کہ اسے مارنے کے لیے آپ کی مدد کی ضرورت پڑے گی ۔“
میں زمین پر ہاتھ ٹیکتے ہوئے اٹھا اور ایک بار پھر خالد کی پیٹھ تھپتھپا کر ریچھ کے قریب ہو گیا ۔میرا شکاری خنجر اب بھی دستے تم ریچھ کے کندھے میں گڑا تھا ۔خنجر نکال کر میں نے ریچھ کو سیدھا کرنا چاہا ۔خالد نے فوراََ آگے بڑھ کر میری مدد کی ۔
ریچھ کو سیدھا کر کے میں اس کا چمڑا اتارنے لگا ۔اسی اثناءمیں گاﺅں کی طرف سے کافی لوگ آگئے تھے ۔موتی میراثی اور ملک صبغت اللہ سب سے آگے آگے تھے ۔ریچھ کو مرا ہو دیکھ کر ملک صبغت اللہ نے میری پیٹھ تھپکی اور جیب سے پانچ ہزار روپے نکال کر مجھے خصوصی انعام دیا ۔جس میں سے دو ہزار میں نے اسی وقت خالد کو دے دیے کہ اس کی وجہ ہی سے میں اس بلا کو مار گرانے میں کامیاب ہوا تھا ۔
گھر واپسی پر چند دن مجھے چارپائی پر گزارنے پڑ گئے تھے ۔جتنے دن میں چارپائی پر رہا ،امی جان کا کوسنوں بھرا وعظ مجھے صبح شام تواتر سے سننے کو ملتا رہا ۔اس عفریت کی کھال آج بھی میری بیٹھک کی دیوار کی زینت بنی ہوئی ہے ۔

Post a Comment

Yahan Comments Karein

Previous Post Next Post